نظم
۔۔۔۔۔
وصل کے جلتے دِیوں کی آنکھ میں اتری گلابی روشنی
رات کی میلی سیاہی میں پڑی لمبی دراڑ
باہمی لذت بھری سرگوشیاں
اور پھر خاموشیاں
مطمئن ہوتے شکن آلود جسم
انتہائی انبساط
رفتہ رفتہ صبح کی پہلی کرن نے جاگ کر انگڑائی لی
تیرگی نے دیکھنے کو روشنی کی آنکھ سے بینائی لی
پیڑ پر بیٹھے پرندوں کی نگاہیں صحن پر مرکوز تھیں
دانہ دانہ اُس کی زلفوں سے وفا کا باجرہ گرنے لگا
وہ نہا کر آئی تو اتنی نشیلی ہو گئی
بارشوں سے دن کی ساری دھوپ گیلی ہو گئی
Related posts
-
اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر
ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے... -
حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے
سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا... -
خاور اعجاز ۔۔۔ امکان (نثری نظم) ۔۔۔ ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
امکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو پیدا ہونے والی تاریکی روشنی کا مطالبہ کرتے ہُوئے گھبرا جاتی ہے...